Wednesday, March 7, 2012

آخری میچ

ہر سال کا ایک حصہ انگریزوں سے بھی بُرا ہوتا ہے جب تقریبا ہر سائز کے انگریز کو کرکٹ کھیلنا پڑجاتی ہے۔ فرسٹ کلاس کاؤنٹی کی وبا عین آغازِ اگست سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح در آتی ہے اور انگریزی سامراج کی طرح چھاتی چلی جاتی ہے۔ ستمبر طلوع ہوتا ہے تو تقریبا ہر منیڈکی کو زکام ہو چکا ہوتا ہے۔

مجھے تو بس سال میں ایک مرتبہ کرکٹ کی یخنی چاہئے ۔۔۔۔۔ میں نے ایک انگریز کو ایک بار کہتے سُنا ۔۔۔۔۔ اگر انگریز یہ یخنی پیتا رہے تو نشاہ الثانیہ کچھ دور نہیں ۔۔۔۔۔۔!

ایک دوسرے انگریز نے نشاہ الثانیہ کے ہوتوں سوتوں کی شان میں گستاخی کی اور کہا ۔۔۔۔۔۔ میں تو اِن کل کے لونڈوں کو دکھانا چاہتا ہوں کہ ہم بابوں میں ابھی تک اِتنا دم خم ہے کہ اُن کی جوانی کو آئنینہ دکھا سکیں ۔۔۔۔۔ !

کھیل کا اہتمام شہروں میں ہی نہیں بلکہ مضافاتی قصبوں اور گاؤں کے لشکارے مارتے سبز میدانوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ یہ کھیل اِتنی دلچسپی اور انہماک سے کھیلا اور دیکھا جاتا ہے کہ اکثر کتے بھونکنا بھول جاتے ہیں حالانکہ جمہوری کتوں کو بھونکنے کے علاوہ اور کوئی آزادی درکار نہیں ہوتی۔

کرکٹ کھیلنے والے ہر عمر‘ جنس اور سائز کے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ کیا لکھا ہوتا ہے ناولوں پر ۔۔۔۔۔ آٹھ سے اسی سال تک کے بزرگوں کے لئے ۔۔۔۔۔ جی ہاں انگریز سال میں ایک بار بچہ بھی بن جاتا ہے خصوصا اسی سال کا بچہ تو دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ میں نے تو اِس کا حِظ اُٹھایا ہے کیونکہ اس برس جو ہماری کرکٹ ٹیم تھی اس کا وکٹ کیپر کم و بیش اسی عمر کا کھلاڑی تھا۔ اُسے وکٹ کیپر کے اسٹائل سے جھکنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی کیونکہ عمرِ عزیز نے اُسے پہلے ہی خمیدہ پشت بنا رکھا تھا۔ خمیدہ پشتی کی سہولت تسلیم لیکن اگر فاسٹ باؤلر کو چمونے لڑ رہے ہوں تو بیٹسمین کے ساتھ ساتھ وکٹ کیپر کی ارادی وغیر ارادی ہِل جُل میں اضافہ ناگزیر ہوتا جاتا ہے جبکہ زائدالعمری پہلے ہی چولیں ہلائے دے رہی تھی نتیجتا میلے کی اس شوقن کو عین کھیل کے دوران ہڈیوں کے ماہر سے رجوع کرنا پڑا جو آخری خبریں آنے تک اُس کے ماتھے پر وہ سینگ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس کا احتمال اُن باب لوگ کو گیند لگنے کے بعد پیدا ہو گیا تھا۔ خیر یہ تذکرہ دیگر ہے۔ فی الحال اس سال وقوع پذیر ہونے والے اُن تاریخی واقعات کا ذکر ہو جائے جب ہمیں بقلم خود اس سانحے سے گزرنا پڑا۔ جی ہاں‘ کہنے والے اِس کو کرکٹ میچ کہہ سکتے ہیں لیکن میرے ایک مزاح نگار دوست کو تو اس میچ کو دیکھ کر بیسیوں آئیڈیے مل گئے تھے۔

تمہیں ہر حال میں کھیلنا ہے ۔۔۔۔۔ بال پارٹی کی ایک جانِ محفل نے مجھ سے فرمائش کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔۔ تم جہاں چاہے فیلڈ کر سکتے ہو (جی نہیں‘ گراؤنڈ کے باہر ہرگز نہیں) تمہیں باؤلنگ کے لئے بھی نہیں کہا جائے گا اور اگر تم چاہو گے تو تمہیں کھیلنے کے لئے بھی آخری نمبر پر بھیجا جائے گا ۔۔۔۔ ہمیں دراصل دو ٹیمیں پوری کرنی ہیں ۔۔۔۔!

اُس جانِ محفل کی زیبائش اور فرمائش دونوں ہی قیامت تھی لیکن چونکہ زیبائش نگاہوں کو خیرہ کئے دے رہی تھی اس لئے ہمیں کھیرا بن کر چاقو کے اوپر نیچے ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوا۔

مجھے فیلڈنگ کے باب میں یہ بات پسند آئی کہ آپ جہاں چاہیں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ گویا ہم وہاں بھی کھڑے ہو سکتے ہیں جہاں کسی بیٹسمین کی جارحیت سگار کے دو ایک کش لگانے میں مانع نہیں ہو سکتی تھی لیکن باؤلنگ کے لئے نہ کہے جانے والی بات کچھ ذیادہ پسند نہیں آئی ۔ اگر باؤلنگ ہی نہیں کی تو پھر آپ نے کرکٹ کھیلی ہے یا جھک ماری ہے۔ نویں دسویں نمبر پر بیٹنگ کرنے کے اپنے فوائد ہیں۔ بندہ آؤٹ آف فوکس بھی نہیں ہوتا اور اگر معجزانہ طریقے سے آؤٹ ہونے سے بچ رہے تو پھر اُسے ڈھٹائی کا مظاہرہ بھی نہیں کرنا پڑتا۔

اِس برس پہلی بار ہماری ٹیم نے ٹاس جیتا ورنہ ہمیشہ اس کا انجام ہٹلر کے آخری معرکے کی طرح ہوتا رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے سات کھلاڑی کام آ گئے۔ سکور بورڈ پر کلم کلا سات کا ہندسہ منہ چڑھا رہا تھا۔ بلکہ ہماری غیرت کو سات سلام بھیج رہا تھا۔ گویا واسطا ہر کھلاڑی توحید کا قائل رہا۔ پھر اس کے بعد آٹھویں وکٹ پر دو کھلاڑی ایلفی لگا کر جم گئے۔ ہوٹل آکسٹرا کا ایک کھلاڑی جس کا کرکٹ کے ضمن میں معاشرتی پسِ منظر خاصا مشکوک تھا کمال کی ٹانگیں توڑنے لگا۔ اُس نے آگے بڑھ بڑھ کر ہٹیں لگانا شروع کر دیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے دو اووروں میں چوبیس رنز بنا ڈالے۔ اس سے پہلے کہ انگریزی نشاہ الثانیہ کے متعلق کوئی پیشکوئی کی جاتی اُس پارٹنر شپ کا ایک چکنا پات بلے کو بغل میں دبائے پویلین کی جانب آتا ہوا نظر آنے لگا۔ یہی وہ وقت تھا جب ڈرامے میں میری انٹری ہوتی ہے۔ میں بہت نروس تھا۔۔۔۔۔۔خیر نروس ہونے کا کیا ہے‘ مجھے تو اس میں ملکہ حاصل ہے (ملکہ ایلزبتھ کا اس سے کوئی علاقہ نہیں)۔ وہاں بھی نروس رہتا ہوں جہاں دوسروں کو نروس کیا جاسکتا ہے۔ میرے نروس ہونے کی وجہ وہ دوستانہ مسکراہٹیں بھی تھیں جو آلے دوالے کھڑے ہوئے فیلڈروں کے لبوں پر رقصاں تھیں۔ مجھے یہ ساری مسکراہٹیں برطانوی دفترِخارجہ کےلوگوں جیسی لگیں جن کے ہونٹ مسکراتے ہوئے اگلے بندے کو دھیرج دیتے ہیں جبکہ ہاتھ پیٹھ پیچھے چھپی ہوئی چھُری پر مزید مضبوط ہو جاتی ہے۔ اِن مسکراہٹوں سے اگرچہ فضا کو خوشگوار بنانا مقصود تھا لیکن میرا پارٹنر بھیڑئے کی طرح غرا رہا تھا۔ جونہی میں کریز پر آیا وہ مجھے یوں ہدایتیں دینے لگا جیسے بریڈمین کا پھوپھڑ ہو۔ میں نے دونوں کان کھول دئے تاکہ اگر کوئی ہدایت ایک کان سے داخل ہو تو دوسرے سے بآسانی خارج ہو سکے۔ اُس گدھے کو کیا خبر کہ میں کوئی ایسا بھی سوہن حلوہ نہیں ہوں۔ اتنی مزاحمت کو مذاق رکھتا ہوں کہ اگلوں کو ہست و بود کے ہجوں کی ادائیگی کا وقت بخوبی مل سکے۔

مجھے ایک ایسے باؤلر سے سابقہ پڑ رہا تھا جو باؤنڈری وال سے دوڑتا ہوا آتا تھا دوسری جانب والی وکٹ کے قریب آکر اچھلتا تھا اور پھر زور سے بازو گھما دیتا تھا۔ گیند دیند نہیں پھینکتا تھا لیکن وکٹ کیپر کی اچھل کود اور قریبی فیلڈروں کی زوردار “اوہ“ سے لگتا تھا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ یوں بھی ایمپائر اُسے اس نوع کی شرارت کی اجازت کیسے دے سکتا تھا۔ وہ ایک فاسٹ باؤلر تھا اور وکٹ ایسی سپاٹ اور بلئرڈ ٹیبل جیسی چکنی تھی کہ اگر میرے جیسا جیالا بھی بال کرواتا تو مائیکل ہولڈنگ سے کم خطرناک ثابت نہیں ہوتا۔ جب باؤلر دو بار اس عمل کو دھرا چکا تو مجھ کر کھلا کہ وہ گیند پھنکتا بھی ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی تیز رفتاری کے باعث کم کم نظر آتی ہے۔ اب میں سنبھل گیا اور اگلی بال کھیلنے کے لئے تیار ہو گیا۔ اِس بار باؤلر نے باؤنسر پھینکا۔ مجھے بال صاف دکھائی دی۔ گیند میرے سر کے اُوپر سے گزر گئی تھی۔ میں یکدم پُر اعتماد ہو گیا۔ اِس قسم کی گیند تو ہر ایرا غیرا نتھو خیرا کھیل سکتا تھا۔ چوتھی گیند بھی پہلی دونوں گیندوں کی طرح نکلی۔ نہ اُن کے آنے کا پتہ چلا اور نہ جانے کا ۔۔۔۔۔ بس دو باتوں کا ہی نوٹس لے سکا۔ ایک تو یہ کہ گیند میں بھی کسی نوع کی برقی توانائی گھولی گئی ہے تبھی تو میری کہنی کے قریب بازُو پر زوردار کرنٹ لگا تھا۔ جو دوسری شے مجھے نظر آئی وہ میرا پارٹنر تھا جو میری طرف دوڑتا چلا آرہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ چلا بھی رہا تھا ۔۔۔۔۔ دو ۔۔۔۔۔ دو۔۔۔۔!!!

میں سمجھا کہ وہ مجھ سے میرا بلا مانگ رہا ہے۔ میں نے اپنا بلا اُس کی طرف بڑھا دیا۔

وہ میرے قریب آ کر چلانے لگا ۔۔۔۔۔۔ ابے گدھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگتے کیوں نہیں ۔۔۔۔۔۔ رنز بناؤ رنز۔۔۔۔۔!!!

اگرچہ رنز بنانے کو کہا تو اُس نے کسی گدھے کو تھا لیکن نہ جانے میں کیوں بھاگنے لگا۔ ہم نے بھاگ کر لیگ بائی کے دو رنز بنائے جسے اگر “بازو بائی“ رنز کہا جائے تو مضائقہ نہیں ہو گا بلکہ ایک طرح سے اُسے “کجن بائی“ رنز بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ گیند لگنے پر جیسی پُرسوز آواز میرے منہ سے برآمد ہوئی تھی وہ صرف اور صرف کجن بائی کا خاصا ہے۔

اب باؤلر کو مزید تجربات کی سوجھی۔ اُس نے گیند کا زاویہ بدل کر اُسے مزید “اُٹھان“ دینے کی ٹھانی۔ یہ اُٹھان کسی جوانی کی اُٹھان کی طرح قیامت خیز ثابت ہوئی۔ پانچویں بال نے میرے منہ کو “فٹے منہ“ بنانے کی ناپاک جسارت کر ڈالی۔ اگرچہ میں نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا لیکن گیند بلیاں دے کر جانے کیسے زنان خانے میں آن گھسی اور میری ٹھوڑی کی خیریت پوچھ ڈالی۔ اس کے بعد جب میں کسی ترقی پزیر ملک کی طرح ڈگمگاتے ہوئے میں کامیاب ہوا تو پون گھنٹا گزر چکا تھا۔ باؤلر کسی نسلی انگریز کی طرح مجھ سے معذرت کرنے لگا۔ میں نے بھی کسی اصلی انگریز کی طرح اُسے دل ہی دل میں ہزاروں گالیاں دیں لیکن اُوپر اُوپر سے اپنی زخمی بانچھیں پھیلا پھیلا کر کہنے لگا ۔۔۔۔۔ اٹس اوکے ۔۔۔۔ تھینکس اینی وے ۔۔۔۔۔۔!!

ویسے قصور تو نہ اُس کا تھا اور نہ میرا بلکہ اگر قصوروار اگر کوئی تھا تو وہ پچ تھی کہ جس نے گیند کو اِتنا اونچا اچھال دیا تھا کہ میرے ظرف سے سنبھالے نہ سنبھلا۔ اوور کی چھٹی اور آخری گیند فل ٹاس تھی۔ میں نے اُسے لیگ باؤنڈری کی طرف کھیلنے کی کوشش کی لیکن مِس کر گیا۔ اِس مس کے مسز بننے کی نوبت نہ آئی کیونکہ محترمہ نے میرے زانو پر اپنا سر رکھنے کی جسارت کر ڈالی تھی۔

ہاؤز دیٹ ۔۔۔۔۔ باؤلر نے اس کُھلی فحاشی پر ایمپائر کی رائے لینی چاہی۔

اوور ۔۔۔۔۔۔ ایمپائر نے تصدیق کی کہ گیند بہت اوور ہو گئی تھی۔

اوور نے جیسے میری بیٹری چارج کر کے رکھ دی۔ شکر ہے کہ ایمپائر نے اِس بال کو نو بال قرار نہیں دیا ورنہ باؤلر کو تو خون لگ گیا تھا۔ آخری بال پر میں نے جس طرح خٹک ڈانس کا ٹھمکا لگایا تھا اُس سے متاثر ہو کر باؤلر یقینا اگلی بال بھی فُل ٹاس ہی کرواتا اور صریحا میرا تختہ دھرن کر دیتا۔

اگلے اوور کی پہلی گیند ہوئی اور دوسری طرف وکٹ کی کلی اڑ گئی۔ محترم بیٹسمین صاحب نے چھکے کی حسرت میں خودکشی فرما لی تھی۔ اب میرا مزید بیٹنگ کرنے کا موقع جاتا رہا لیکن ایک اچھے بیٹسمین کی طرح میں نے حرفِ شکایت زبان پر نہیں لایا۔ اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ میںجم گیا تھا تو کسی بھی سیاستدان کی سچائی کو چیلنج کر سکتا ہوں تاہم جس بال پر دوسرا کھلاڑی آؤٹ ہوا تھا میں اُسے تو کم از کم پویلین کی سلامی کو تو بھیج ہی سکتا تھا۔

چونکہ مجھے “ناٹ آؤٹ“ رہنے کا افتخار حاصل رہا تھا اس لئے میرے کپتان نے اپنے غازی کو بخوشی اجازت دے دی کہ وہ ہوٹل کی کسی بھی حسینہ سے کچھ دیر کے لئے اپنے دکھُتے ہوئے بازُو کی مالش کرا سکے۔

اُس دن کی باقی دوپہر فیلڈنگ کرتے گزر گئی۔ دوسری ٹیم کی بیٹنگ میں کوئی خاص بات نہیں تھی سوائے اس کے کہ وہ صورتِ حرام نوجوان جسے ہوٹل کی حسینائیں “چاکلیٹ ہیرو“ اور میں پیار سے “تارا مسیح“ کہہ کر بُلاتا تھا‘ سینچری بنا گیا۔ کم بخت نے زیادہ تر شارٹس میری طرف ہی ماریں۔ میں شارٹ لیگ پر پہرہ دے رہا تھا۔ ہر بال پر دلکش اسٹائل سے غوطہ زنی فرماتا تھا لیکن اس اہتمام کے ساتھ کہ “انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو“ ۔۔۔۔۔ یُون بھی میں اگر اُس کے شارٹس روکنے لگ جاتا تو تماشائی حسینائیں صاف پہچان جاتیں کہ رقابت پر تُلا بیٹھا ہوں۔ وہ کمبخت بھی شارٹس لگاتے ہوئے میرے کدو کو مدِنظر رکھتا تھا جیسے باؤنڈری یہیں طلوع ہوتی ہو۔

کپتان نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اگر میری بے مثال فیلڈنگ جاری رہی تو اُس نامراد کی سینچری “ہزاری“ میں بدل سکتی ہے‘ مجھے باؤلنگ پر لگا دیا۔ میں ایک وکھرے ٹائپ کا باؤلر ہوں۔ میری باؤلنگ منفرد نظریے کی حامل ہے۔ بعض حاسدوں کا خیال ہے کہ میں عموما گلی میں کھڑے ہوئے فیلڈروں کو بلے باز سمجھ کر باؤلنگ کراتا ہوں جو کہ ایک انتہائی غلط خیال ہے۔ میں اپنے آپ کو صرف اور صرف نجیب الطرفین سمجھ کر باؤلنگ کرواتا ہوں۔ میں اپنی باؤلنگ سے کسی کو یہ سمجھنے کا موقع نہیں چاہتا کہ بچپن میں شرفاء زادوں کے برعکس بنٹے کھیلتا رہا ہوں اسی لئے نشانے سے انحراف طبقاتی تفاخر کا طرہ امتیاز سمجھتا ہوں۔

میں نے جونہی اُس صورتِ حرام کو پہلی بال کروائی‘ اُس نے ایک زوردار ہٹ لگائی اور حسبِ عادت گیند کا رخ میری طرف ہی رکھا۔ گیند میزائل کی طرح میرے سینے کی طرف لپکی۔

کیچ اِٹ ۔۔۔۔۔۔ ہمارا کپتان چلایا۔

میں نے ایک شاندار چھلانگ لگائی‘ گیند پکڑنے کے لئے نہیں بلکہ اُس کی زد سے بچنے کے لئے۔ کپتان کا منہ کسی ویلش باشندے کے منہ کی طرح سُوج گیا۔۔۔۔۔ ویسے ہمارا کپتان ویلش کا باشندہ ہی ہے ۔۔۔۔۔ بدخُو اور خونخوار ۔۔۔۔۔۔ اب وہ مجھ سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ میں نے کیچ کیوں نہیں پکڑا

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

جب گیند باؤنڈری وال سے واپس میرے قبضے میں آئی تو میں نے اُس سے کہا ۔۔۔۔۔۔ یار ! کیوں میری روزی روٹی کے دشمن بنے بیٹھے ہو ۔۔۔۔ اگر میں اُس گیند کو کیچ کرنے کی حماقت کرتا تو اپنی تینوں انگلیاں تڑوا بیٹھتا اور اگر انگلیاں ہی نہ ہوئیں تو کیا میں ڈاکٹروں کی طرح پیروں سے لکھا کروں گا ۔۔۔۔۔ اگر کسی کا ہاتھ ٹوٹ جائے یا اُس کی انگلیوں میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو لگ پتہ جاتا ہے۔ کیوں ایک کیچ کے پیچھے میری جان کے درپے ہو رہے ہو ۔۔۔۔ کچھ خُدا کا خوف کرو ۔۔۔۔۔۔ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میرے (ہونے والے) بیوی بچوں کے نان نفقے کی ذمہ داری کون لے گا ۔۔۔۔ کیا تم لو گے۔۔۔۔۔؟؟؟

اُس نے ویلش باشندوں کی طرح منہ ہی منہ میں کچھ کہا ۔۔۔۔ غالبا روایتی طور پر میرے انگریز ہونے کو ہی گالی بنایا ہو گا۔

جیسے تیسے کر کے میں نے اوور کی بقایا گیندیں بھی کروا ہی ڈالیں۔

اوور کے اختتام پر میں دوبارہ شارٹ لیگ پر فیلڈنگ کرنے لگا۔ بلے باز نے مجھ سے شرارتوں کا سلسلہ جاری رکھا اور عین اگلی بال پر لیگ کی طرف گیند کی گولی داغ ڈالی۔ کچھ تو جذبہ رقابت سے مغلوب ہو کر اور کچھ کپتان کی رطب و یابِس سے جھنجھلا کر میں نے اُس گیند کو روکنے کے لئے غوطہ لگایا۔ گیند کو روک تو نہ پایا ہاں البتہ اُس کا رُخ اور رفتار تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ گیند نے میری ٹانگوں کے اُوپر ایک ایسے حصے میں ٹکر جڑ دی تھی کہ جس کا بیان سنسر کی زد میں آتا ہے اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اگر رہی بھی تو اِس احساس کے ساتھ کہ

زندگی درد کی تصویر بنی جاتی ہے

میری بیکسی کی شرم رکھتے ہوئے کسی دوسرے فیلڈر نے گیند اُٹھائی اور باؤلر کی طرف اُچھال دی اور یُوں کھیل جاری رہا۔

جب میرے حواس نادندگان کی طرح قابُو میں آئے اور دن میں دکھائی دئے جانے والے تارے نظروں سے چھٹے تو ایک نہایت عبرت ناک منظر نظروں سے گزرا۔ وہی مردود بلے باز جس نے کافی دیر سے مجھے اپنی خباثت کا نشانہ بنا رکھا تھا‘ خاک چاٹ رہا تھا۔ ہماری ٹیم نے فاسٹ باؤلر نے ایسی انتقام پرور گیند کرائی تھی کہ اللہ اکبر ۔۔۔۔۔۔ اُس نے عین جسم کا وہی حصہ تھاما ہوا تھا جس کا نشانہ مجھے بنایا تھا۔ اِدھر میں اُردو کے آٹھ کا ہندسہ بنتا ہوا کھڑا ہوا اُدھر وہ سات کا ہندسہ بنتا ہوا زمین بوس ہوتا گیا۔ ایسا گرا کہ جیسے زمین پر نہ گرا ہو نظروں سے گرا ہو‘ اُٹھ ہی نہ سکا۔

جب وکٹ کی کلیوں کو گرایا گیا تو میرا خیال تھا کہ اب اِس طویل دن کا بوریا بستر لپٹ چکا اور میں پُلِ صراط کا سفر طے کر چکا لیکن ایسا نہیں تھا۔ ابھی اس دن کی جگ ہنسائی کو امر بننا باقی تھا جس کا مظاہرہ ایک گروپ فوٹو کی صورت میں ظاہر ہوا۔

اس واقعے کو صدیاں گزر چکیں ہیں۔ پچھلے دنوں میری ایک دوست نے جب یہ گروپ فوٹو دیکھا تو ایک صاحب کی طرف اشارہ کر کے دریافت کیا ۔۔۔۔۔ کیوں مکڈونلڈ ! یہ بجو جیسا شخص کون ہے؟

میں نے لاعلمی سے شانے ہلا دئے۔ کیوں صاحبو! آپ جانتے ہیں کہ وہ کون تھا؟؟؟؟

بیسل میکڈونلڈ ہیزٹنگس کی تحریر “ دی ونس اے ائر کرکٹ“ سے ماخوذ

Thursday, September 23, 2010

میں بھی کیانی ہوں

جی ہاں میں ببانگ دہل اس جرم کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں بھی کیانی ہوں۔ کیانی اس لئے ہوں کہ جس گھر میں پیدا ہوا ہوں وہاں جتنے افراد تھے وہ سب کے سب کیانی تھے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اس لئے میں نے بھی کیانی بننے میں عافیت جانی۔ غالبا‘ کہیں سے سُن لیا ہو گا کہ رُوم میں رہو تو رومن بن کر رہو۔

بظاہر میرے کیانی ہونے میں سارا قصور میرا نہیں ہے۔۔۔۔قصور تو یوں بھی میرا نہیں ہے‘ نُور جہاں اور انہی جیسے دیگر قصورواروں کا ہے تاہم اگر میں کیانی ہو ہی گیا ہوں تو میں نے کیانی ہوئے رہنے میں اتنی دیر لگا دی ہے کہ ایکسپائری مدت بھی گزر چکی ہے۔ اب میرا کیانی پن واپس نہیں موڑا جا سکتا۔

میرا کیانی ہونا میری پیدائش کی وجہ سے ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرا ایمان ہے کہ ہم سب کو اللہ نے پیدا کیا ہےچنانچہ یہ فدوی کسی بھی طور اقبال کی طرح شکوہ و جواب شکوہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ خدا کا شکر ہی ادا کر سکتا ہوں کہ اُس نے مجھے کیانی پیدا کیا ہے۔ وہ اگر زرداریوں کے گھر بھی پیدا کر دیتا تو پھر بھی میں کیا کر سکتا تھا۔ویسے کیانی ہوتا زرداری ہونے سے تو خاصا بہتر ہے۔ اس وقت کیانی اور زرداری دونوں اقتدار کی غلام گردش میں موجود ہیں اور ہر اکھاڑ پچھاڑ کا محور جانے جاتے ہیں لیکن کبھی کیانی کا لطیفہ نہیں سُنا گیالیکن زرداری پر اس قدر لطیفے گھڑے جا چکے ہیں کہ کیا ہی سکھوں اور پٹھانوں پر گھڑے گئے ہوں گے۔ اگر اس قدر لطیفے سکھوں یا پٹھانوں پر تراشے جاتے تو دونوں مارے غیرت کے بالترتیب جمنا دل اور دریائے کابل میں چھلانگ لگا چکے ہوتے۔ تاہم سکھوں اور پٹھانوں کو ذاتی طور پر آصف زرداری کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ اُس کی وجہ سے طنز کے تیروں کا رخ اُن سے ہٹ گیا ہے بلکہ اب تو اُن کے کھاتوں سے بھی کئی لطیفے نکال کر زرداری کے ذاتی اکاؤنٹ میں ڈیپازٹ کر دئے گئے ہیں۔

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

جیسے میں اپنے کیانی ہونے پر شرماتا ہوں ویسے ہی دوسرے کیانی بھی اس بات پر شرمسار ہیں کہ میں بھی کیانی ہوں۔ اُن کی شرمساری بالکل بجا ہے کیونکہ مجھ میں ایسی کوئی خوبی نہیں پائی جاتی جو کسی کے کیانی ہونے کی بین نشانی سمجھی جاتی ہے۔

کیانیوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ بندے کے پُتر نہیں ہیں اور جو انہیں ایسا سمجھتے ہیں انہیں وہ پُتر بنا دیتے ہیں۔ پُتر بنانا ایک پوٹھوہاری روز مرہ ہے جس کا مطلب ہے مزہ چکھانا۔ کیانیوں کو اس کام میں ملکہ حاصل ہے۔ بسا اوقات تو میرے جیسے کیانی میں بھی خون جوش مارنے لگتا ہے کہ کسی کو مزا چکھا دوں لیکن اکثر میں یہ مزا خود ہی چکھ کر نچلا بیٹھ جاتا ہوں۔

کیانی فطرا‘ جھگڑالُو ہے یہی وجہ ہے کہ پاک فوج میں ان کی اکثریت نظر آتی ہے۔ یہ لڑائی کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ میرے دوست مرزا طاہر شریف بیگ ولد مرزا شریف بیگ کا کہنا ہے کہ جس طرح چرند پرند صبح سویرے روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں اسی طرح کیانی بھی نہار منہ گھر سے کسی ایسے بندے کی تلاش میں نکلتے ہیں جو اُن سے لڑائی پر آمادہ ہو سکے۔ گرمیوں کے موسم میں تو اُن کی یہ جستجو ثمرآور ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس موسم میں تو ہر بندہ کیانی بنا ہوا ہوتا ہے تاہم سردیوں کے موسم میں ایسے بندوں کا خاصا کال ہوتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت شیخ بنی ہوئی ہوتی ہے اس لئے اُسے مطلوبہ بندوں کی سپلائی نہیں ہو پاتی چنانچہ اپنی عادت پوری کرمے کے لئے وہ اپنے ہی منہ پر طمانچہ جھاڑ دیتا ہے اور پھر اپنے آپ سے ہی نبرد آزما ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ آخری حد ہوتی ہے۔ گھر میں اُن کی بیگم تو ہوتی ہی ہے اور یہ خاتون خود بھی اچھی خاصی کیانی ہوتی ہے اس لئے کیانیوں کو خود سے لڑنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

میں نے مندرجہ بالا پیرے میں اپنے دوست طاہر کا تذکرہ کیا ہے اور ان کا پورا نام بمع ولدیت لکھ دیا ہے جو کہ اچھی خاصی خلافِ ضابطہ حرکت ہے۔ میدانِ ظرافت کے موجودہ سرخیل ڈاکٹر محمد یونس بٹ اپنے دوست کے لئے ف۔م۔ کا نام استعمال کرتے رہے ہیں اُن کی دیکھا دیکھی دوسرے لال بجھکڑوں نے بھی حروفِ تہجی پر چھاپے مارنے شروع کر دئے ہیں۔ اب راقم الحروف کے پاس کوئی حرف نہیں بچا ہے چنانچہ وہ بجنگ آمد اپنے دوست کے ضمن میں پورا نام استعمال کر رہا ہے۔ بلکہ فدوی چونکہ کیانی بھی ہے اس لئے کسی کی پردہ داری کا بھی قائل نہیں چنانچہ اگر کسی کو متذکرہ دوست کے مزید کوئف درکار ہوئے تو وہ بھی اضافی مندرجات کے ساتھ بخوشی فراہم کر دئے جائیں گے۔

کیانی جس طرح خود ٹیڑھی کھیر ہیں اسی طرح اُن کے گھر میں جو چھوٹی چھوٹی ٹیڑھی کھیر کی رکابیاں ہیں وہ بھی کچھ کم کیانی نہیں ہیں۔ اگر کبھی آپ کا جانا اپنے برخوردار کے اسکول میں ہو اور کسی جگہ اسکول کے بچوں کا جمگھٹا دیکھیں تو پریشان مت ہوئیے گا۔ سمجھ جائیے گا کہ وہاں ضرورکوئی کیانی زادہ کسی دوسرے ہم منصب کیانی زادے سے یا غیر کیانی سے گتھم گتھا ہو رہا ہے۔

ویسے کیانیوں کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی بہت فکر ہوتی ہے چنانچہ تمام کیانیوں کے گھروں میں کیبل کی تار دندناتی پھر رہی ہے۔ گھروں میں کیانی اپنی نودمیدہ آفتوں کو ریسلنگ کے چینل دکھاتے پھر رہے ہوتے ہیں تاکہ اُن کے جنگجُو سپوت ابتدائے آفرینش سے ہی ٹریننگ حاصل کر سکیں۔

میرے دوست کا کہنا ہے کہ کیانی بہت جھوٹے ہوتے ہیں۔ مجھے ثبوت کے طور پر وہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں ایک گھر کے سامنے لے گیا اور گیٹ پر لگی ہوئی نیم پلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔ اسے دیکھ رہے ہو؟
دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔ میں نے منہ بنا کر کہا ۔۔۔۔ کیا ہے اس میں؟
نیم پلیٹ پر لکھا ہوا ہے واحد کیانی ۔۔۔۔۔ دُو یُو بیلیو اٹ کہ اس گھر میں چار بھائی رہتے ہیں اور چاروں کے چاروں کیانی ہیں۔ ان کے والد نے جھوٹی نیم پلیٹ لگوا رکھی ہے کہ وہ واحد کیانی ہے۔

علامہ اقبال نے کہیں کہا تھا کہ؛
وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

ہمارے اور آپ کے بڑے کیانی صاحب نے اس شعر کی ماہیت کو جانچا اور درِیار پر ایسے ایسے سجدے کھڑکائے ہیں کہ زرداریوں اور گیلانیوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی اُن کی مدت ملازمت میں تین برسوں کی توسیع کرنی پڑی۔ سب لوگ اُس درِ جاناں سے آشنا ہیں جہاں سے اُن کے سیلوٹوں کی آوازیں آیا کرتی ہیں۔ اور یہ امر بھی اظہر من الشمس ہے کہ اس نوٹیفیکیشن کے اجرا میں اُن کی لیاقت اور قابلیت کا کتنا عمل دخل ہے۔ یہی وہ قابلیت ہے جو ہر جگہ کیانیوں کو مرکز نگاہ بنائے رکھتی ہیں اور یہی وہ لیاقت ہے جس سے یہ عاجز بےبہرہ ہے اسی لئے حالات کی سیخوں پر پڑا سڑ رہا ہے۔

تو صاحبو مندرجہ بالا باتوں کے باوجود میں ببانگ دہل اس جرم کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں بھی کیانی ہوں۔

آخر کو میں کیانی ہی ہوں۔

Tuesday, September 21, 2010

بسم اللہ

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
Powered by Blogger.